مرحوم میرزا غلام سجاد اشہر کا مرثیہ


مرزا غلام سجاد اشہر
تاریخ ولادت: ماہ رجب سنہ ۱۲۵۶ھ ہجری ضلع گنگاوتی  
تاریخ وفات: ۲۷ صفر ۱۳۲۱ھ حیدرآباد۔

۱۔ عرشِ حق پر ہے رقم اسم معلائے حسین
 ہے بر و دوشِ رسولِ عربی جائے حسین
حُسن ہے والہِ حُسنِ رخِ زیبائے حسین
 مِہر ہے پرتوِ تنویرِ کفِ پائے حسین
دُرِ دنداں کی چمک برق کو شرماتی تھی
عرش پر آنکھ ملائک کی جھپک جاتی تھی

۲۔ حبذا نورِ رخِ سبط رسولِ عربی
 رخِ پُر نور سے خورشید کو تھی ضو طلبی
دی تھی خالق نے زبانمیں بھی وہ شیریں رطبی
شوق سے مثلِ رطب چوستے تھے جسکو نبی
شایق اک ایک پہ سننے کو گرے پڑتے تھے
منہہ سے ہنگامِ سخن پھول سدا جھڑتے تھے

۳۔ چمن آرائے دو عالم کی زہے گل کاری
 باس سے پھولونکی بس جاتی تھی محفل ساری
لبِ جاں بخش کا تھا فیض جہانمیں جاری
 بات کی بات میں پاتے تھے شفا آزاری
’’قم ‘‘ عوض ’’ قل ‘‘ کے لحد پر کیا جب دَم پڑھ کر
قبر سے اٹھتے تھے مردے کلِمہ پڑھ پڑھ کر

۴۔ ابرو و عارض و مژگاں کی ہو خوبی جو رقم
 سیدھی ہوجائے کماں زرد ہوں گل تیر ہو خم
زیرِ ابرو جو جگہ پائ تھی آنکھوں نے بہم
اہلِ کعبہ کا بیاں تھا کہ ہیں آہوئے حرم
ایسی دیکھی نہیں دنیا میں کسی کی آنکہیں
بس بعینہ تھیں رسولِ عربی کی آنکہیں

۵۔ عارضوں پر جو تھی گیسوئے معنبر کی نمود
 دُور بیں کہتے تھے یہ گل پہ ہے سُنبل کا وجود
کہتے تھے اہلِ نظر بعض یہ پڑھ پڑھ کے درود
 مُشک افشاں گلِ تر شانِ جنابِ معبود
بعض کہتے تھے کہ دیکھا نہ کبھی بھالا ہے
دیکھتے آج ہیں کانوں نے جو من ڈالا ہے

۶۔ صاف شفاف چمکتی ہوئی وہ پیشانی
 ہو مقابل میں تو آئینہ کو ہو حیرانی
مہرِ افلاکِ فلک تھا وہ نبی ؐ کا جانی
 چاند کہئے تو ہو صد چند عیاں نادانی
شور تھا ساری جبینوں میں سرامد ہے یہ
عرشِ خالق پہ عیاں نورِ محمد ؐ ہے یہ

۷۔  صاف پیشانی و عارض بر و زانو شفاف
 دوش شفاف ہر اک ساعد و بازو شفاف
آئینہ سینۂ بے کینہ تو پہلو شفاف 
 صاف دل صاف جگر صاف ذقن رو شفاف
خاتمہ تن کی صفائ کا ہوا جاتا تھا
جِلد سے قلب کا سب حال نظر آتا تھا

۸۔ حُسن میں تھا نہ کوئ آپکا مانند و نظیر
 دیکھ کر شکل ٹھٹک جاتے تھے اکثر ررہگیر
پاس شاہانِ اولوالعزم کے با صد توقیر
کہنچ کے ہر سمت گئی بہرِ زیارت تصویر
ذاتِ باری کا جو اِرشاد کبھی پاتے تھے
عرش پر جھولے سے جبریل لئے جاتے تھے 

۹۔ گاہوا رے میں نہ آتا تھا نظر جبکہ پسر
فاطمہ ؑ باپ کے پاس آتی تھیں مضطر ہوکر
عرض رو رو کے یہ کرتی تھیں کہ یا خیرِ بشر
کیا کروں جھولے میں بچہ نیہں آتا ہے نظر
کہئے اِرشادِ خدا کچھ اگر آیا ہوگا
کس نے بابا مرے بچے کو چھپایا ہوگا

۱۰۔ ہنس کے فرماتے تھے بیٹی سے یہ سلطانِ عرب
 فاطمہ ؑ روتی ہو کیوں روح الامیں آئے تھے اب
مجھ سے یہ حال بہ تفصیل بیاں کرکے سب
 یعنی شبیر ؑ کی ہے عرشِ اِلہیٰ پہ طلب
جبرئیل آئے تو سوتا ہوا پا کر اُسکو
عرش پر لے گئے جھولے سے اٹھاکر اُسکو

۱۱۔ عرشِ حق کیجو مقرب ہیں ملک نیک انجام
 میرے شبیر ؑ کے مشتاقِ زیارت تھے تمام
جب مشرف بہ زیارت ہوئے سب اے گلفام
 لائے جبریل اُسی طرح سے با صد آرام
جاکے اب دیکھ لو فرزند نہ روتا ہوگا
بلکہ گہوارے میں آرام سے سوتا ہوگا

۱۲۔ عہدِ طفلی سے یہ تھی شفقتِ ربِ متعال
 مچلا اک دن پئے آہو جو پیمبرؐ کا لال
حکمِ خلاقِ دو عالم سے بہ تعجیلِ کمال
 ہرنی حاضر ہوئی خدمت میں وہاں لیکے غزال
حق کو رنج اِس دلِ نازک کا گوارہ کب تھا
چشم سے اشک نہ نکلے کہیں یہ مطلب تھا

۱۳۔ ما سِو ا اِسکے یہ تھی خاطرِ شاہِ والا
 ایک دن بیٹھے تھے مسجد میں رسولِ ؐ والا
آکے اک پیرِ کُہن سال نے با پشتِ دوتا
 جھک کے پیغمبر ؐ اکرم کو کِیا اک مجرا
سمجھے انصار موالی کوئی وہ والہ ہے
حالِ ظاہر سے عیاں تھا کہ نود سالہ ہے

۱۴۔ چوم کر پائے مبارک کو بصد شوق و طرب
 بیٹھا پیغمبر ؐ کونین کے آگے بادب
دیکھ کر اُسکو یہ کہنے لگے سلطانِ عرب
 منہ سے کچھ اپنے بیاں کر ترا کیا ہے مطلب
وجہہ کیا آنے کی کس بات کا جوئیندہ ہے
مطمئن رہ کہ جو جوئیندہ ہے پائیندہ ہے

۱۵۔ سُن کے یہ جھک کے نبی ؐ کو کئے دو تین سلام
 جوڑ کر ہاتھونکو کی عرض کہ یا شاہِ انام
خوب ہیں واقف و آگاہ شہِ عرش مقام
مال و اولاد سے دنیا میں بشر کا ہے نام
یوں تو اک لطف سدا مالِ خدا داد سے ہے
زینت و تقویتِ زیست پر اولاد سے ہے

۱۶۔ کیا اگر مر گئے کچھ چھوڑ کے مال و زر و سیم
 کرلیا بیٹھ کے پسماندوں نے اُسکو تقسیم
گر گئے چھوڑ کے اولاد سا اک دُرِّ یتیم 
 پئے قسمت نہیں ہوتا کسی صورت وہ دونیم
دوست کہتے ہیں وہ مغفور ہو یہ شاد رہے
کچھ نہ ہو پاس مگر دولتِ اولاد رہے

۱۷۔ ہے وہ گھر قبر سے بد تر نہیں جس گھر میں چراغ
 جس میں دو گل بھی شگفتہ نہیں گلشن ہے وہ ژاغ؟
پاس اولاد رہے رنج سے گو ہو نہ فراغ
 اُسنے دو پھول رکھے قبر پہ دل ہوگیا باغ
خاک سب کچھ ہے جو راحت کا سرانجام نہیں
گر نگیں سادہ ہے خاتم میں تو کچھ نام نہیں 

۱۸۔ آپ سے عرض کی حاجت نہیں یا شاہِ زمن
 مالِ دنیا سے جو رہتا ہے تو ساتھ ایک کفن
شک نہیں اِسمیں بھی مِل جاتا ہے جب خاک میں تن
 کام اولاد بھی آتی نہیں بعدِ مُردن
مگر اولاد کو اک شرع کی تاکید تو ہے
کچھ نہیں فاتحۂ خیر کی امید تو ہے

۱۹۔ اُلفتِ سیم و طِلا کو میں سمجھتا ہوں حرام
جو نہ مطلوب ہو شئے اُسکی طلب سے کیاکام
مگر اک آرزو رکھتا ہے یہ مدت سے غلام
 ایک فرزندِ نرینہ دے مجھے ربِ انام
جب تلک زیست ہے راحت کا سرانجام رہے
بعد دنیا میں اگر میں نہ رہوں نام رہے

۲۰۔ بصد اِلحاح و مناجات و خضوع و زاری
 کی دعا درگہہِ باری میں کئی سَو باری
ہوگی کچھ مصلحتِ خاصِ جنابِ باری
 کس طرح جان سکے فعلِ حکیم آزاری
پر یہ کہتا ہوں کہ اولاد عنایت ہوئے
اک دعابھی مری مقرونِ اِجابت ہوئے

۲۱۔ زور کیا سائلِ نادار ہوں میں ‘ وہ مسؤل
 چاہا مقبول کِیا چاہا کِیا نا مقبول
مگر اے فخرِ اُمم آپ ہیں خالق کے رسول
 ہے دعا آپ کی درگاہِ الہیٰ میں قبول
آپ چاہیں جسے حق اُسکو برومند کرے
عرض کیجے کہ عطا حق مجھے فرزند کرے

۲۲۔ آپ کے خُلق و کرم کی ہے شہا خلق میں دہوم
نہ پِھرا آپ کے در سے کوئی سائل محروم
چشمہ فیض پہ ہوتا ہے مگر سب کا ہجوم
میں بھی محتاج ہوں اے خاصۂ ربِ قیوم
میری حاجت بھی روا اے شہِ عالم کردو
دُرِ مقصود سے مولا مِرا دامن بھردو

۲۳۔ کیجئے میرے لیئے ہاتھ اٹھا کریہ دعا
ایک فرزند دے مجھ عاجز و بے کس کو خدا
بے کنار اُسکی عطا کا ہے جہاں میں دریا 
اُس پہ فرمائیں کرم سے جو دعا خیرِ ورا
کیا تعجب ہے کہ عالم میں برومند ہوں میں
دور ہو لا ولدی صاحبِ فرزند ہوں میں

۲۴۔ کہا سلطانِ رسالت نے یہ سُن کر مذکور
سچ ہے یہ اُسکی عنایت سے ہے بھائی کیا دور
راحم و رازق و خالق ہے وہ ستار و غفور
ہو سکے اُسکا ادا حق ثنا کیا مقدور
ہم سے کیا وصف ہو مستغنی الالقاب ہے وہ
مفضِل و مُطعم و تواب ہے وہاب ہے وہ

۲۵۔ ابھی کرتا ہوں دعا میں مجھے کچھ عذر نہیں
 اُٹھے یہ کہکے مصلّے سے شہِ عرش نشیں
نہ ہوئے تھے ابھی مصروفِ دعا قبلۂ دیں
عرش سے اتنے میں نازل ہوئے جبریلِ امیں
عِلم جب وحیِ الٰہی کا ہو ا بیٹھ گئے
یا تو اٹھتے تھے رسولِ دوسرا بیٹھ گئے

۲۶۔ حاملِ وحی نے کی عرض پس از نعت و درود
یا نبی ؐ آپ سے فرماتا ہے یہ ربِ وَدُود
گرچہ تو عبد ہے اور ذات ہماری معبود
ہم نے پر خَیلِ ملک کا کِیا تجھ کو مسجود
عبد بھی اور نبی ؐ نیک و خوش اسلوب بھی ہے
دوست بھی عاشقِ جانباز بھی محبوب بھی ہے

۲۷۔ خلق میں حد و نہایت ترے رتبے کی نہیں
 ہم نے کی فیض قدم سے ترے سرسبز زمیں
تیری نعلین سے دی عرش کو ہم نے تزئیں
 تجھ کو دی پاک جگہ پردۂ قدرت کے قریں
قرب پایا کسی مرسل نے یہ کب عالم میں
فرق دو قوس سے کم رہگیا تجھ میں ہم میں

۲۸۔ اپنی قدرت کا کِیا ہے تجھے ہم نے مختار
 تیرے قبضے میں ہیں افلاک و زمیں جنت و نار
سب رسولوں کا کِیا ہے تجھے ہم نے سردار
 سب سے اعلیٰ کِیا رتبہ ترا اور تیرا وقار
گرچہ ذی رتبہ تھے وہ بھی کوئ معیوب نہ تھا
پر پیمبر تھے ہمارا کوئی محبوب نہ تھا

۲۹۔ تو ہے محبوب ہمارا تری خاطر ہے عزیز
 حوریں فردوس کی ہیں تیرے غلاموں کی کنیز
شرفِ حج سے فُزوں ہے ترا طوفِ دہلیز
 جسپہ قادر نہیں تُو کونسی ایسی ہے وہ چیز
شب کو دے حُکم تو خورشید عیاں ہو جائے
پِیرِ صد سالہ کہے تُو تو جواں ہوجائے

۳۰۔ اشرف و اکرم و امجد ہے تُو اے میرے رسول
ہر دعا تیری ہے درگاہِ الٰہی میں قبول
تُو دعا مانگے یہ ممکن ہے کہ ہو نا مقبول؟
 دوزخی پر ہو ابھی عرش سے رحمت کا نزول
کاتبِ نامہ بھی آگاہ نہ اِس حال سے ہوں
محو یوں اُسکے گنہہ نامۂ اعمال سے ہوں

۳۱۔ مگر اے باعثِ ایجادِ سماوات و زمیں
ہو یہ روشن کہ پسر اُسکے مقدر میں نہیں
خسروِ جن و ملک رازِ الٰہی کے امیں
تم دعا اُسکے پسر کے لئے کرنا نہ کہیں
آپ نے قصد جو اے سرورِ ذیجاہ کِیا
حق نے ہے قبلِ دعا آپ کو آگاہ کِیا

۳۲۔ جب سنا آپ نے یہ حکمِ خدائے متعال
یا تو بشاش تھے یا چھاگیا چہرے پہ ملال
رد کبھی شہ نے کِیا تھا جو نہ سائل کا سوال
 شرم سے جھک گئی گردن متغیر ہوا حال
رنگ فق ہوگیا کچھ کہہ نہ سکے شرماکر
رہ گئے بید کی مانند نبیؐ تھرا کر

۳۳۔ دل سے کہتے تھے کہ قسمت کا تو ایسا یہ بشر
اِس کو رخصت کرے مسجد سے محمد ؐ کیونکر
صاف صاف اُس سے اگر یاس کی کہدوں یہ خبر
کوہِ رنج و الم و حُزن گرے گا دل پر
پھر کروں اُس سے تو کس ڈہنگ کی تقریر کروں
جاے مسجد سے یہ وہ کونسی تدبیر کروں

۳۴۔ متردد تھے مصلے پہ شہِ عرش سریر
کھیلتے کھیلتے مسجد میں جو آئے شبیر ؑ
حبذا منزلت و عزت و شان و توقیر
اٹھے تعظیم کو مسجد میں صغیر اور کبیر
لگ کے منبر سے یہ جس دم بادب بیٹھ گئے
جتنے تعظیم کو اٹھے تھے وہ سب بیٹھ گئے

۳۵۔ تھا یہ معمول کہ مسجد میں یہ آتے تھے جب
دوڑکر گود میں لے آتے تھے سلطانِ عرب
متفکر تھے جو اُسوقت شہِ نیک لقب
نہ لیا گود میں اٹھ کر نہ کیا اسکو طلب
دور ناناسے پہ منبر کے قریں بیٹھے تھے
فکر میں بادشہِ عرش نشیں بیٹھے تھے

۳۶۔ دیکھا نانا سے جو اک امر خلافِ عادت
غور سے تکنے لگے ختمِ رُسل کی صورت
رُوئے اقدس کی جو دیکھی متغیررنگت
سمجھے کچھ فکر ہے بیٹھے ہیں مکدر حضرت
افتخارِ ملک و قدسی و اِنس و جِن تھے
صاحبِ عقل تھے معصوم تھے گو کمسن تھے

۳۷۔ اٹھ کے خود پاس نبی ؐ کے گئے با عزت و جاہ
بیٹھ کر گود میں کی چہرۂ اقدس پہ نگاہ
ڈال کر ہاتھوں کو گردن میں یہ بولا وہ ماہ
آج کچھ بولتے ہم سے نہیں کیوں نانا واہ
فکر کیا آج ہے کیوں آپ دل افسردہ ہیں
مجھ سے فرمایئے کس بات پہ آزردہ ہیں

۳۸۔ چوم کر منہ کو یہ کہنے لگے شاہِ دوجہاں
خیر ہے کچھ نہیں تشویش و تردد مری جاں
عرض کی رنج و تردد تو ہے بُشرے سے عیاں
کہا کچھ رنج نہیں تم پہ محمد ؐ قرباں
عرض کی پھر عرق افشاں رخِ انور کیوں ہے
آپ کا چہرۂ اقدس متغیر کیوں ہے

۳۹۔ بولے لپٹا کے گلے شا ہ بصد اِستقلال
کچھ تغیر نہیں کچھ وجہ نہیں ہے مرے لعل
عرض کی آپکے چہرے سے ہوئیدا ہے ملال
کہئے صدقے ہوں میں اے بادشہ نیک خصال
نہ اگر آپ کہیں گے سبب اِسکا نانا
پھر نہ کچھ بولیں گے ہم آپ سے اچھا نانا

۴۰۔ خوب اِس حال سے واقف تھے شہِ عرش نشیں
روٹھتے جب ہیں تو یہ مانتے پہروں ہی نہیں
سونچے گر اب نہ کہوں اِس سے تو یہ ماہ جبیں
ہے یہ اندیشہ کہ اِس دم نہ مچل جائے کہیں
وہ تو سائل ہے کسی طور سے ٹل جائیگا
پر قیامت ہے جو شبیر ؑ مچل جائیگا

۴۱۔ منہ پہ منہ رکھ کے یہ فرمانے لگے شاہِ حنین
رفع تشویش کروگے مری اے نورالعین
جوڑ کر ہاتھوں کو کہنے لگے نانا سے حسین
پہلے وہ بات تو فرمائیں رسول ؐ الثقلین
کس لیئے فکر ہے اور کیوں متردد دل ہے
میں سنوں تو سہی پہلے کہ وہ کیا مشکل ہے

۴۲۔ مسکرا کر یہ لگے کہنے شہنشاہِ عر ب
آپ کے آگے جو بیٹھا ہوا یہ شخص ہے اب
قلب پر اِسکے فزوں لاولدی کا ہے تعب
پاس آیا ہے مرے دور سے یہ نیک لقب
خاک اولاد کی خواہش میں بہت چھانی ہے
آخری عمر جو ہے دل کو پریشانی ہے

۴۳۔ مجھ سے رکھتا ہے یہ خواہش کہ کروں میں یہ دعا
اک پسر خالق قیوم کرے اُسکو عطا
میں نے کی تھی نہ دعا بھی ابھی اے ماہ لقا
لاکے پہونچایا جو جبریل نے یہ حکمِ خدا
آپ کو بہر دعا حکمِ خداوند نہیں
اُسکی قسمت میں شہا دولتِ فرزند نہیں
جب سے نافذ ہوا یہ حکمِ خدائے کونین

۴۴۔ تب سے خاطر متردد ہے طبیعت بے چین
وجہ کچھ اِسکے سوا کچھ نہیں اے نورالعین
اب کہو رفع یہ تشویش ہو کس طور حسین ؑ
سب پہ ظاہر ہے کہ اﷲ کا محبوب ہوں میں
منہ سے سائل کے پر اِس وقت تو محجوب ہوں میں

۴۵۔ سنکے یہ کہنے لگا ہنس کے وہ زہرا ؑ کا لال
بس اِسی بات کا ہے خاطرِ اقدس پہ ملال
یہ تو کچھ جائے تردد ہے نہ جائے اِشکال
لیجئے میں نے دیا اک پسرِ نیک خصال
خاطر افسردہ نہ یوں بیٹھئے اب تو نانا
اٹھ کے چھاتی سے لگالیجئے ہم کو نانا

۴۶۔ ہوگئے سنکے یہ بے چین شہِ جن و بشر
کہا اِس طرح سے کہتے نھیں اے نورِ نظر
مصلحت اُسکی جو کچھ ہے وہ ہے سب سے بہتر
دخل کیا اُسکی مشیت میں ہمیں اے دلبر
گرچہ تقریر یہ ساری ہے طفولیت کی
شان لیکن یہ نہیں عبد و عبودیت کی

۴۷۔ ہنس کے کہنے لگا نانا سے یہ وہ ماہ جبیں
دو پسر میں نے کئے اُسکو عطا یا شہِ دیں
کہا حضرت نے نہیں اے مرے دلدار نہیں
کلمے اِس طرح کے پھر منہ سے نکالو نہ کہیں
عرض کی رکھیں گے مایوس بھلا کب اُسکو
تین فرزند کئے میں نے عطا اب اُسکو

۴۸۔ کہا حضرت نے کہیں پھر نہ کہو اے دلدار
عرض کی اب تو دیئے میں نے پسر اُسکو چار
کہا حضرت نے یہ کیا کہتے ہو میں تم پہ نثار
عرض یہ شاہ نے کی بے طلب و بے تکرار
پانچ فرزند اِسے بخشش ہیں ہماری نانا
فیض ہے پنجتنِ پاک کا جاری نانا

۴۹۔ کہا حضرت نے نہیں خوب یہ بحث اے دلبند
عرض کی میں نے دیئے یا شہِ دیں چھ فرزند
کہا حضرت نے کہ اے لختِ دل اے دل پیوند
کچھ سمجھتے نہیں سمجھاتا ہے نانا ہر چند
عرض کی کھو دیا اِس دم غمِ سائل ہم نے
سات فرزند دیئے اے شہِ عادل ہم نے

۵۰۔  جد و فرزند میں پہونچی تھی یہاں تک تکرار
آئے جو عرش سے جبریلِ امیں پھر اکبار
کی پیمبرؐ سے پس از مدح و ثنا یہ گفتار
یا شہِ اِنس و جن و حور و ملک جنت و نار
عَظَمت اور پیمبر نے یہ کب پائی ہے
آپ کی آل نے توقیر عجب پائی ہے

۵۱۔ یا شہِ جُز و کُل اے خاصۂ ربِ صمدی
ہے یہ ارشادِ خدائے ازلی و ابدی
بحث کیوں کرتے ہو شبیر سے اے میرے نبی
اُس نے سائل کو دی اولاد اگر ہم نے دی
اب کہا تم نے تو زہرا ؑ کا پسر روئیگا
عرش ہل جائیگا شبیر ؑ اگر روئیگا

۵۲۔ گرچہ اولاد کبھی اُسکے مقدر میں نہ تھی
نہیں شبیر ؐ کی منظور مگر دل شکنی
ہمکو خاطر ہے زیادہ پسرِ زہرا ؐ کی
سَو پسر بخشے جو شبیر تو بخشیں ہم بھی
کہدو سائل سے بدل دی تری قسمت ہم نے
سات فرزند کیئے تجھ کو عنایت ہم نے

۵۳۔  پیار خالق کا یہ تھا اور یہ محمد ؐ کا تھا پیار
مجھ سے یہ ہیں تو میں اِس سے ہوں کہا سَو سَو بار
ہین نبی ؐ پشت بہ طاعت یہ ہیں جب تک اسوار
سر اٹھاتے نہ تھے سجدے سے رسولؐ مختار
نہ ہوا حق کو گوارہ کبھی رونا اِنکا
بارہا تھا پرِ جبریل بچھونا اِنکا

۵۴۔ ایک دن تو تھے یہ آسائش و راحت یہ چین
 ریگِ تفتیدہ پہ اک دن ہے اما مِ کونین
یاد آتی ہے جو اشفاقِ شہِ بدر و حنین
منہ مدینے کی طرف کرکے یہ کہتے ہیں حسین
آکے دو روز کے پیاسے کی خبر لو نانا
اِس مصیبت میں نواسے کی خبر لو نانا

)
نوٹ:رجسٹر میں بند نمبر ۵۴ کے بعد نمبر ۵۶ لکھا گیا ہے اِسلئے یہاں سے ایک نمبر کا فرق ملیگا (

۵۵۔ کوئی بعد آپکے اے بادشہِ نیک خصال
 نہ کِیا خاک بھی حضرت کی وصیت کا خیال
پھنس گئی آکے مصیبت میں یہاں آپ کی آل
باغ اِس دشت میں حضرت کا ہوا سب پامال
ہم سے امت تھی بہت آپ کو پیاری نانا
مگر امت نے یہ کی قدر ہماری نانا

۵۶۔ پانی وہ پیتے ہیں خود تو دُر و دام و سگ و خوک
 مجھ کو دیتے نہیں گرمی میں یہ ہے طُرفہ سلوک
غش پہ غش آتے ہیں بچوں کو یہ دو دن سے ہے بھوک
شبِ ہشتم سے ہے سیدانیونمیں رونے کی کوک
اِسپر آتی نہیں امت کی شکایت لب پر
آج دو روز ہوئے ہیں کہ ہے فاقہ سب پر

۵۷۔ کی ہدایت پہ کوئی بات نہ میری مانی
 راہ پر آتے نہیں ظلم و ستم کے بانی
طرفہ ایذا دی یہ کرتے ہیں نئی مہمانی
مجھ کو دکھلاکے بیاتے ہیں زمیں پر پانی
بھوکا دو دن کا نہ دو روز کا پیاسا سمجھا
مجھکو امت نے نہ حضرت کا نواسا سمجھا

۵۸۔ سامنے میرے بہایا مرے بچونکا لہو
 مرگیا کھاکے سنان اکبرِ غازی مہ رو
پائمالِ سم اسپاں ہوا قاسم خوش خو
بے خطا نہر پہ عباس کے کاٹے بازو
سب کمائی ہوئی اِس دشت میں برباد مری
کفن و گور کی محتاج ہے اولاد مری

۵۹۔ واجب الرحم سمجھتے نہیں میرا احوال
دیکھ کر ہنستے ہیں حالت مری سب بد افعال
تن ہے تیروں سے مشبک تو ہے سینہ غِربال
دیکھئے آکے جو تیغوں سے کِیا ہے مرا حال
اب تو دُھن ہے کہ جدا تن سے مرا سر کردیں
آپ کی آل کو بے مقنعہ و چادر کر دیں

۶۰۔ اُن کو میرے فقط اک سر سے نہیں ہے مطلب
 سرِ زینب کی ردا لینے پہ آمادہ ہیں سب
کھینچ کر باندھیں گے رسی سے یہ دستِ زینب
کہئے اب کیا کروں مجبور ہوں یا شاہِ عرب
اُنکو دکھلا دوں ابھی زورِ امامت نانا
پر یہ ہے دہیان کہ ہے آپ کی امت نانا

۶۱۔ میں ہوں راضی مجھے گر قتل کریں بانئ شر
 جلتی ریتی پہ رہے دہوپ میں جسم بے سر
غم نہیں دیں نہ کفن بھی مرے لاشے کو اگر
یا قلم تن سے مرے ہاتھ کریں مرنے پر
سر پہ عمّامہ ہو نہ جسم پہ پیراہن ہو
تا بہ چہلم یونہی اِس خاک پہ عریاں تن ہو

۶۲۔ مجھ کو تشہیر کریں مسلمِ بے پر کی طرح
حلق پر تیر لگائیں علی اصغر کی طرح
برچھیاں سینہ پہ ماریں علی اکبر کی طرح
ہاتھ کاٹیں مرے عباسِ دلاور کی طرح
بلکہ اِن سب سے زیادہ بھی مرا حال کریں
گھوڑے دوڑائیں مری لاش کو پامال کریں

۶۳۔ کاٹ کر سر مرا کردیں ابھی نیزے پہ عَلَم
 فکر کچھ مجھ کو نہ اپنی ہے نہ صدمہ ہے نہ غم
سب صعوبات پہ راضی ہوں میں یا شاہِ اُمم
بازو رسی میں جو زینب کے بندہیں ہے یہ ستم
شب کو اِس دشت میں تنہا مرا لاشہ بھی رہے
سب ہو لیکن مری مانجائی کا پردا بھی رہے

۶۴۔ آئی آواز محمد ؐ کی یہ با شیون و شین
میں فدا اور مرے ماں باپ بھی تجھ پر اے حسینؑ
قبر میں بھی نہ دیا امتِ بد نے مجھے چین
میں بھی تربت سے ترے ساتھ ہوں اے نورالعین
میرے ہمراہ رسولانِ سلف حاضر ہیں
شب سے اِس دشت میں سلطانِ نجف حاضر ہیں

۶۵۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم میں سے یہاں کوئی نہیں
 ننگے سر کل سے ہے یاں فاطمہؑ زہرا غمگیں
تنِ نازک پہ چبہیں دشت کے کنکر نہ کہیں
رات بھر بالوں سے جھاڑی ہے یہ مقتل کی زمیں
باپ اک سمت ہیں اور ایک طرف مادر ہے
اِس گھڑی گود میں نانا کی تمہارا سر ہے

۶۶۔ لاش عریان رہے گی جو تری اِس بن میں
 مجھ کو چین آئیگا اے لال بھلا اِس بن میں
میں رکھوں گا کفنِ بُردِ یمانی تن میں
خاک پر چھوڑوں گا بیٹا ترا لاشہ رن میں
دہوپ کا صدمہ ترے ساتھ سہے گا نانا
تا بہ چہلم ترے لاشے پہ رہیگا نانا

۶۷۔ ہے تمہیں اپنی بہن کی جو اسیری کا خیال
واقعی صدمہ جانکاہ ہے اے نیک خصال
تم کو اِس بات پہ آجائیگا بیٹا جو جلال
نارِ دوزخ سے ہے بچنا مری امت کا محال
یہ بھی اک کوہِ مصیبت ہے اٹھا لے بیٹا
تیرے صدقے مری امت کو بچالے بیٹا

۶۸۔ بس بس اشہرؔ یہ کدہر آگیا اِس وقت خیال
موم ہیں مومنونکے قلب نہ کہہ سخت اب حال
حُسن کے ذکر میں کیسا یہ جگر سوز احوال
بزم مشتاق ہے آغا ز ہو پھر ذکرِ جمال
ختم کر اُسکو جو مذکورِ حَسن باقی ہے
ذکرِ محمود کی ہر قلب کومشتاقی ہے

۶۹۔ حُسنِ مرغوب جو رکھتا تھا نبی ؐ کا پیارا
عاشق و والہ و شیدا تھا زمانہ سارا
نورِ رُخ دیکھنے کا تھا نہ کسی کو یارا
ہوتی آنکھونمین چکاچوند تو دل صد پارہ
کاش نظارۂ حسنِ رخِ دلکش کرتے
دیکھتے نور یہ موسیٰ بھی تو پھر غش کرتے
 
۷۰۔ حُسن کی حضرتِ یوسف کے تھی اک مصر میں دہوم
ہوتے گر آج تو ہو جاتی حقیقت معلوم
واں نہ مشتاق تھے کچھ ایسے نہ ایسا تھا ہُجوم
حال ہے یہ مہہِ کنعاں کا کتب میں مرقوم
تھے گراں قدر مگر کم سے بھی کم قیمت تھی
آپ کے حُسن کی اٹھارہ دِرم قیمت تھی

۷۱۔ حُسنِ یوسف پہ تھے اک حضرتِ یعقوب فدا
 یعنی فرقت ہوئی اُنسے تو ہوئے نابینا
بعد یعقوب کے کچھ عشق زلیخا کو ہوا
واہ رے عشق کوئی دل میں یہ سوچے تو ذرا
کبھی کرتا نہیں یوں عشق کا مارا کوئی
رنج معشوق کا کرتا ہے گوارا کوئی

۷۲۔ حُسنِ یوسف پہ زلیخا ہوئی مائل جس دم
اُسکے باعث سے پہ کیاکیا ہوئے حضرت پہ ستم
رنج پر رنج سہے دکھ پہ دکھ اور غم پر غم
لب کبھی خشک تھے اور تھیں کبھی آنکھیں پُرنم
جانتا ہے دلِ یوسف ہی کہ کیا کیا گزری
سات یا آٹھ برس قید کی ایذا گزری

۷۳۔ حُسنِ یوسف پہ فقط مِصر میں چرچا یہ تھا
 بادشاہی بھی ہوئی دوسرا شہرہ یہ تھا
حُسن عشق اِسکے سِوا کچھ نہیں جو تھا یہ تھا
مختصر آپ سے بس عشقِ زلیخا یہ تھا
بندۂ حُسن بھی وہ شُوخِ شکر خانہ ہوئی
عہدِ شبیر میں افسوس زلیخا نہ ہوئی

۷۴۔ سُن لیا سب نے جو حُسنِ مہہِ کنعاں کا تھا حال
 اب کہاں حُسنِ حسیں اور کہاں یوسف کا جمال
تھم کے سب پڑھ لیں درود اور سنیں کچھ احوال
حُسنِ شبیر ؑ کا کرتا ہوں بیاں بِالاِ جمال
ضمن میں مدح کے فردوس عُلیٰ لینا ہے
آج محبوبِ اِلٰہی سے صلہ لینا ہے

۷۵۔ ایک دن بیٹھی تھیں بانوئے رفیع الدرجات
چند ہمسایہ کی خدمت میں تھیں حاضر عورات
باتیں آپس میں جو کرنے لگیں حسبِ عادات
حُسن کی حضرتِ یوسف کے بھی نکلی کچھ بات
ایک بولی کہ عجب کچھ خط و خال اُنکا تھا
ایک بولی کہ غضب حُسن و جمال اُنکا تھا

۷۶۔ ایک کہنے لگی آنکھیں تھیں کہ نرگس کے تھے گُل
ایک بولی خطِ عارض پہ تھا صدقے سُنبُل
ایک کہنے لگی تھے مشک سے خوشبو کاکُل
ایک بولی کہ تھا رخسار کی تنویر کا غُل
ایک کہنے لگی کیا نور کی پیشانی تھی
بولی اک گردنِ پُرنور بھی لا ثانی تھی

۷۷۔ ایک کہنے لگی تھے لعل کہ گلبرگ سے لب
بولی اک لعل کو اُن ہونٹونسے نسبت تھی کب
ایک کہنے لگی دنداں کی صفائی تھی غضب
بولی اک رات کو جوں نجم چمکتے تھے سب
ایک کہنے لگی تھی غنچہٌ زنبق بینی
بولی اک دل سے کہا راست زہے حق بینی

۷۸۔ ایک کہنے لگی ابرو کے کمانوں کا وہ خم
 ایک بولی کہ میں قربان عجب تھا عالم
ایک کہنے لگی مجموعی کہیں حُسن اب ہم
ایک بولی کہ میں سمجھی مرے دیدوں کی قسم
ایک کہنے لگی کچھ ذکرِ زلیخا ہوگا
بولی اک کارِ دو نارنج کا قصہ ہوگا

۷۹۔ تذکرہ کرتی تھیں آپس میں یہ وہ عورتیں سب
سنتی تھیں بیٹھی ہوئی بانوئے فرخندہ لقب
منقطع اُنکے تکلم کا ہوا سلسلہ جب
یک بیک بانوئے عالم متبسم ہوئیں تب
بات کچھ ایسی نہ تھی پر ہوئی خِفّت اُن کو
ہوئی بانو کے تبسم سے ندامت اُن کو

۸۰۔ سوچ کر سب نے بصد عِجز ادب سے اُس آں
جوڑ کر ہاتھوں کو کی عرض کہ اے شاہِ زناں
ہم نے اِس دم جو کیا حُسن کا یوسف کے بیاں
شاید اُسمیں غَلَطی کا ہوا حضرت کو گماں
وجہہ جُز اِسکے کوئی اور تو ناپیدا ہے
کہئے قربان ہوں ہم وجہہِ تبسم کیا ہے

۸۱۔ سُن کے یہ پھر متبسم ہوئیں بانوئے انام
 گرکے قدموں پہ کِیا پھر وہی اُن سب نے کلام
ہنس کے کہنے لگیں بانوئے امم عرش مقام
ذکرِ یوسف ہے رقم مصحفِ باری میں تمام
آج بھی یاد ہےکالحِفظوہ سورت مجھ کو
رات دن رہتی ہے قرآں کی تلاوت مجھ کو

۸۲۔ واقعی حضرت یوسف تھے حِسیں کیا کہنا
 بے بدل تھے رخ و رخسار و جبیں کیا کہنا
تھی صباحت بھی کہ شک اِسمیں نہیں کیا کہنا
حُسن کا اُنکے ہے ہر دل کو یقیں کیا کہنا
میں بھی قائل ہوں کہ سب قول تمہارا سچ ہے
ہوں مُقِر کارِ دو نارنج کا قصہ سچ ہے

۸۳۔ لوٹ کر پائے مبارک پہ یہ کہنے لگیں سب
واری سب کچھ کہا پھر کچھ نہ کہا ہائے غضب
قول ہم لوگوں کا تسلیم کے لایق تھا جب
نہ کُھلا پھر کوئی حضرت کے تبسم کا سبب
بند افکار و تردد میں ہیں آزاد کرو
مسکرانے کا سبب کہکے ہمیں شاد کرو

۸۴۔ جب مُصِر حد سے زیادہ ہوئیں ساری عورات
ہنس کے فرمانے لگیں بانوئے پاکیزہ صفات
جب تم اِصرار ہی کرتی ہوتو کہتی ہوں یہ بات
دن ہوئی تھی کبھی یوسف کے بھلا حُسن سے رات
تھے حسیںحُسن میں پر اُنکے لطافت کب تھی
تھی صباحت تو زیادہ پہ ملاحت کب تھی

۸۵۔ جب زمانے میں نہ تھا اُنکے سِوا کوئی حَسیں
ہر طرف حُسن کے مذکور تھے تعریفیں تھیں
قولِ باطل ہے یہ کہتی ہو جو اب کوئی نہیں
کیا عجب کوئی حَسیں اُنسے زیادہ ہو کہیں
نورِ رخ چاند سے دَہ چند جو تابندہ ہو
سامنے آئے تو خورشید بھی شرمندہ ہو

۸۶۔ جوڑ کر ہاتھوں کو اُسدم یہ کیا سب نے بیاں
آپ کے قول کی تکذیب ہماری کیا جاں
مگر اک عرض ہماری ہے یہ اے فخرِ زناں
کہیں ایسے بھی بشر ہوئینگے خالق کی ہے شاں
حُسن کے جتنے صفات آپ کے آئے لب تک
دیکھنا کیا کہ سنے بھی نہیں ہم نے اب تک

۸۷۔ کہا بانو نے کہ دکھلادیں جو ہم ایسا حَسیں
تب تو تم بیبیاں ہوجاؤگی قائل کہ نہیں
عرض کی سب نے تحیر میں ہیں دلہائے حزیں
دیکھ ہی لینگے تو پھر آئیگا کیونکر نہ یقیں
روشنی آنکھوں کو اور قلب کو راحت ہوگی
حُسن کی آپ کے صدقے میں زیارت ہوگی

۸۸۔ کہا بہتر ہے مجھے بھی نہیں کچھ اِسمیں کلام
آج سب بیبیاں آجائیں مرے گھر سرِ شام
منتشر ہوگئیں یہ سنکے وہ سب نیک انجام
شام کو خانۂ اقدس میں ہوئیں جمع تمام
باتیں رستے میں وہی تھیں وہی تاویلیں تھیں
شبِ تاریک جو تھی ہاتھوں میں قندیلیں تھیں

۸۹۔ بی بیاں جمع محلے کی ہوئیں جب ساری
 اٹھی مسند سے وہ سلطانِ عجم کی پیاری
اکے کچھ سوزنِ باریک وہ لیں یکباری
دن کو محسوس جو ہوتی تھیں بصد دشواری
دیر سے تیز بصارت بھی اثر کرتی تھی
تیرگی جنکے پِرونے کو نظر کرتی تھی

۹۰۔ لیکے اُن سوزنِ باریک کو مُٹھی میں شتاب
متوجہ ہوئیں پھر جانبِ مسند وہ جناب
پاس اُن سب کو بلاکر بہ صد اِکرام و خطاب
سوزنوں کو دیا گِن گِن کے ہر اک کو بحساب
کہا سمجھیں نہ کبھی غیر حقیقت اِنکو
اپنی مُٹھی میں رکھیں سب بہ حفاظت اِنکو

۹۱۔ لیکے اُن سوزنِ معدود کو تب اُن سسے بہم
عرض کی سب نے کہ اے دخترِ سلطانِ عجم
سوزنوں کو تو حفاظت سے رکہیں گے سب ہم
یہ تو فرمائیے گا آپ کو زہرا ؑ کی قسم
یوں تو ہے صبح سے تشویش کا مسکن دل میں
اب تو بس ڈوب گئی فکر کی سوزن دل میں

۹۱۔ صبح کو آپ نے ہم سے یہ کِیا تھا اِقرار
 شب کو سب بیبیاں آ جائیں یہاں بے تکرار
آج دکھلاؤں گی میں شب کو حَسیں وہ دلدار
حُسنِ یوسف کا جہاں سرد ہو سارا بازار
شب کو دیکھے گا وہی بخت ہوں جاگے جسکے
ٹھیکرا مِہرِ جہاں تاب ہے آگے جسکے

۹۳۔ منتشر صبح سے یہ سنکے ہمارے ہیں حواس
آج دن بھر نہ ہمیں بھوک ہوئی اور نہ پیاس
وقتِ موعود پہ حاضر جو ہوئے بے وسواس
کچھ وہ سامان نظر آتا نہیں آپ کے پاس
شوقِ دیدار میں انجیر بہ اعناق ہیں ہم
بی بی اُس چاند سی تصویر کے مشتاق ہیں ہم

۹۴۔ کہا بانو نے کہ اﷲ یہ عجلت پئے دید
 نہ ابھی آئیں نہ بیٹھیں نہ ہوئی گفت و شنید
میں نے باتیں بھی نہ کیں وہ کہ جو ہو قطع امید
چاہتی یہ بھی ہو شب کو نظر آئے خورشید
اِسپہ جلدی یہ قیامت سبب اِسکا کیا ہے
دم لو کچھ صبر کرو دیکھو تو ہوتا کیا ہے

۹۵۔ عرض کی سب نے نہیں صبر کی طاقت ہمکو
کب سے تڑپاتی ہے دیدار کی حسرت ہمکو
کب نظر آئیگی وہ شان وہ شوکت ہمکو
جلد دکھلایئے وہ چاند سی صورت ہمکو
کہیئے از قِسمِ بشر ہے کہ ملک نام ہے کیا
ہنس کے بولیں تمہیں کیا نام سے کیوں کام ہے کیا

۹۶۔ عرض کی سب نے یہ حضرت کا ہے اِرشاد بجا
کام سے کام ہے ‘ مطلب ہے ہمیں نام سے کیا
مگر اِس طرح جو عالم میں حَسیں ہو یکتا
ہے بجا نام اگر دل پہ لکھیں ہم اُسکا
کہا تم بیبیاں جو کہتی ہو زیبندہ ہے
عرشِ خالق پہ بھی یہ نامِ مبیں کندہ ہے

۹۷۔ تم سے کیا کیا کہوں اُس نامِ مبارک کا شرف
نام منہ سے لیا دھویا گیا سب دل کا کَلف
عالَمِ نزع میں گر کوئی بصد شوق و شغف
وِرد اِس نام کا رکھے تو نہ ہو جان تلف
لن ترانی نہیں موسیٰ نے بھی تھا کیا دیکھا
جب نہ دیکھا اِسے کب نور خدا کا دیکھا

۹۸۔ لوٹ کر قدموں پہ بے ساختہ کہنے لگیں سب
اور بھی ہاتھوں سے مَل ڈالے یہ دل ہائے غضب
بی بی جو کچھ ہو سو ہو نام بیاں کیجئے
کہا ہے نام کے لینے میں تامل مجھے کب
پہلے ہو ہوکے مودب صلواتیں پڑھ لیں

۹۹۔ سنکے برپا ہوا اک شورِ درود اور سلام
اٹھ کے مسند پہ کھڑی ہو گئیں بانوئے انام
کہا سب بیبیاں سن لیں کہ میں اب لیتی ہوں نام
میرا والی مرا مالک ہے وہ اور کُل کا امام
جد محمد ؐ سا رسول الثقلین اُسکا ہے
نام رکھا ہوا خالق نے حسین اُسکا ہے

۱۰۰۔ حُسنِ یوسف میں بہت کرتی تھیں تم قال و مقال
 اب میں دکھلاتی ہوں تم کو مرے والی کا جمال
میں نے جو سوزنیں دی ہیں یہی اُسکا ہے مآل
صحن میں پھینک دے گِن گِن کے ہر اک نیک خصال
میری باتوں کو بہ خوبی کہہ و مہہ گوش کریں
گو شبِ تار ہے پر شمع بھی خاموش کریں

۱۰۱۔ میں بلاتی ہوں جو تشریف یہاں لائیں امام
 صبح ہوجائے گی چہرے کی تجلی سے یہ شام
میں اِدھرشاہ سے ہوجاؤں گی مصروفِ کلام
سوزنوں کو تم اُدھر خاک سے چُن لیجو تمام
بے حُجب حق کا کبھی نور نہ دیکھا ہوگا
بلکہ موسیٰ نے سرِ طُور نہ دیکھا ہوگا

۱۰۲۔ کہہ کے یہ شمع کو گل کردیا خود با صد جاہ
مُڑ کے فرمایا پھر اُن عورتوں سے بسم اﷲ
تیرگی ہوگئی اک دم میں کچھ ایسی ناگاہ
ہر طرف ٹھوکریں کھاتی ہوئی گرتی تھی نگاہ
کد و کوشش بھی ہر اک سمت سے کی جاتی تھی
ایک کو ایک کی صورت نہ نظر آتی تھی

۱۰۳۔ حکم نافذ ہوا بانو کا جو سب پر اُس آں
اٹہیں ہاتھ ایک کا تھامے ہوئے ہر اک حیراں
آئیں جب صحن میں دالان سے اُفتاں خیزاں
پھینک دی سوزنیں ساری یہاں کچھ تو کچھ واں
خود تھیں بانوئے اُمم دیکھنے والی سب کی
ہوگئیں سوزنوں سے مُٹھیاں خالی سب کی

۱۰۴۔ سوزن و شمع کے سب کام سے فارغ جو ہوئیں
اک کنیزک کو بلاکر کہا بانو نے وہیں
جاکے کہنا یونہی تو قبلۂ عالم کے قریں
بانو کچھ عرض کِیا چاہتی ہیں قبلۂ دیں
ہوگی تکلیف تو اِس درجہ پہ ممتاز کریں
ایک دم کے لیئے لونڈی کو سرافراز کریں

۱۰۵۔ سنکے بانو سے ہوئی جبکہ کنیزک وہ رواں
 آکے حضرت سے یہ کی عرض کہ یا شاہِ شہاں
آپ سے عرضِ ضروری ہے جو ہو اِذنِ بیاں
کھولے معروضے میں اُس عرض کے لونڈی یہ زباں
پوچھا حضرت نے کہ ایسا ہی اہم کام ہے کچھ
عرض کی بانوئے آفاق کا پیغام ہے کچھ

۱۰۶۔ سن کے یہ عرض قریں شہ نے کِیااُسکو طلب
کہا پہلے یہ بیاں کر کہ مع الخیر ہیں سب
جوڑ کر ہاتھوں کو کی عرض کہ یا شاہِ عرب
خیریت ہیں حرمِ پاکِ شہِ نیک لقب
جاے تشویش و تردد نہیں بے غم سب ہیں
اُسکے اِفضال سے مولا خوش و خُرم سب ہیں

۱۰۷۔ ہاتھ اٹھا کر کہا گردوں کی طرف شکرِ خدا
 پھر کنیزک سے کہا کہہ ترا مقصود ہے کیا
عرض کی اُسنے کہ بی بی نے یہ ہے عرض کِیا
لائیں بیت الشرفِ خاص میں تشریف ذرا
رچہ حضرت کو بلاؤں مرا مقدور نہیں
پرسرافراز کریں مجھ کو تو کچھ دور نہیں

۱۰۸۔ کہا حضرت نے کہ کیا کام ہے معلوم تو ہو
 عرض کی علم بہ تفصیل نہیں لونڈی کو
جانتی ہوں پہ بہ اِجمال یہ شاہِ خوش خو
عورتیں جمع محلے کی ہیں با وجہِ نِکو
باتیں کچھ بی بی سے نسوانِ عرب کرتی ہیں
آپ کو بانوئے آفاق طلب کرتی ہیں

۱۰۹۔ ڈال کر وشِ مبارک پہ رِدا با صد جاہ اٹھا
مسجد سے عصا لے کے پیمبر ؐ کا ماہ
آیا پردے کے قریں جب وہ دوعالم کاشاہ
اٹھ کے دی حاجب و درباں نے صدا بِسمِ اﷲ
یاں سوئے در قدمِ سیدِ والا اٹھا
وہاں بیت الشرفِ خاص کا پردا اٹھا

۱۱۰۔ ابھی داخل درِ عصمت میں ہوئے تھے نہ حضور
پھیلا ہر سمت جو عکسِ رخِ پُر نور کا نور
چادرِ نور بچھی فرشِ زمیں پر تا دور
یک بیک ہوگئی ظلمت کی سیاہی کافور
فوجِ اِجلال و حشم چاہیئے سرداری کو
آ پ سے پہلے بڑہا نو ر جِلو داری کو

۱۱۱۔ رکھا دروازے میں جب دلبرِ زہرا ؑ نے قدم
ہوگیا اک شبِ مہتاب کا ظاہر عالم
صحنِ اقدس میں رکھا پائے مبارک جس دم
خِیرگی کرنے لگی چشم ہر اک کی پیہم
سب پہ ثابت یہ ہوا برقِ تجلی چمکی
ڈر کے سب عورتیں چلائیں کہ بجلی چمکی

۱۱۲۔ اٹھ کے گردوں سے بصد فخر یہ کہتی تھی زمیں
شمس کو تیرے مرے شمس پہ واروں کہ نہیں
چھپ رہا اب نہیں آتا ترا خورشیدِ مبیں
زرد یرقاں کی طرح شکل سدا چیں بہ جبیں
سامنے آتا چمکنے کا اگر جوہر تھا
عالَم افروزی کا دعویٰ بس اِسی منہ پر تھا

۱۱۳۔ کدہر اِس مِہر کا پرتو کدہر اُس ہور کا نور
 شعلہ آتش کا وہ تاباں یہ سرِ طور کا نور
خالص اﷲ کا یہ نور تو وہ نور کا نور
کیوں نہ ذرہ سا نظر آئے کہ ہے دور کا نور
وہ فقط شمع ہے اور نورِ سرِ طور ہے یہ
جس سے موسیٰ کو غش آیا تھا وہی نور ہے یہ

۱۱۴۔ دنگ تھیں محو تھیں حیراں تھیں جو وہ عورتیں سب
اُنسے فرمانے لگین بانوئے پاکیزہ لقب
دیکھا حُسنِ رخِ پُر نورِ شہنشاہِ عرب
حُسن یوسف کا زیادہ تھا یہ کہتی نہ تھیں سب
دہیان تم سب کا کدہر ہے مری باتیں سُن لیں
سوزنیں خاک پہ بکھری ہوئی ساری چُن لیں

۱۱۵۔ چونکیں سب بانوئے عالم کاسنا جب یہ کلام
جلد چننے لگی جھک جھک کے ہر اک نیک انجام
اے خوشا نورِ رخِ بادشہِ عرش مقام
سوزنیں بکھری ہوئی خاک سے چن لیں وہ تمام
بے کم و کاست تھیں تعداد ہر اک نے جب کی
مُٹھیاں بھر گئیں خالی جو ہوئی تھیں سب کی

۱۱۶۔ ایسی صورت پہ تھے سب ہوتے نہ کیونکرصدقے
صبح سے شام تلک جاتی تھی مادر صدقے
ہوتے تھے حیدرِ ؑ کرار مکرر صدقے
یہ تو ماں باپ تھے ہوتے تھے پیمبر ؐ صدقے
دیکھ کر ہوتے تھے معشوق بھی ہر دم عاشق
خواب میں تب تو ہوئیں بانوئے عالم عاشق

۱۱۷۔ شاہ کو بانوئے عالم نے کِیا تھا جو طلب
اُس بلانے کا تو ظاہر ہوا ہر اک پہ سبب
یاد آیا مجھے اِس ذکر پہ اور اک ذکر اب
دلِ مغموم پہ ہے جس کے تصور سے تعب
دیکھ کر غم سے ہر اک منہ کو جگر آتا تھا
ایک دن اور بھی اِس بی بی نے بلوایا تھا

۱۱۸۔ کونسا دن تھا وہ بربادئ عالم کا دن
رنج و درد و الم و محنت و ماتم کا دن
آلِ احمد ؐ کی تباہی کا غم و ہم کا دن
قتلِ سادات کا عاشورِ محرم کا دن
جاں بلب خیمہ میں خسرو کے کئی مہوش تھے
پیاس سے جھولے میں جب اصغرِ ناداں غش تھے

۱۱۹۔ فصل کی گرمی سے معصوموں کا تھا یہ عالم
مچھلی جس طرح تڑپتی ہے زمیں پر پیہم
ریت میداں کی ہٹا کر جو زمیں پاتے نم
کُرتے سرکاکے وہ رکھ دیتے تھے مٹی پہ شکم
آہٹ آنے کی کسی کے جو ذرا پاتے تھے
خالی کوزے لئے خیمے سے نکل آتے تھے

۱۲۰۔ کیا قلم کرسکے اُس دن کی مصیبت تحریر
یوں تو ہیں پیاس سے بیتاب کئی طفلِ صغیر
علی اصغر کو پہ دو روز سے پانی تھا نہ شِیر
ہے بہت پیاس سے معصوم کی حالت تغئیر
پھول سے گال جو بے آب تھے کمہلائے ہوئے
فکر میں پانی کی ماں سر کو تھی نیہوڑائے ہوئے

۱۲۱۔ چونک کر روتا جو گہوارہ میں وہ غنچہ دہاں
دوڑ کر گود میں جھولے سے اٹھا لیتی تھی ماں
ماں کی گودی میں بہلتا جو نہ وہ خشک زباں
لیکے بہلاتی کبھی اُسکو سکینہ ناداں
منہ پہ منہ رکھتی گلا چومتی جاتی تھی کبھی
اپنی سوکھی سی زباں اُسکو چُسساتی تھی کبھی

۱۲۲۔ کبھی کہتی تھی کہ بہلاؤں میں اماں کیونکر
کسی صورت سے بہلتے نہیں بھائی اصغر
کبھی گھبراکے یہ کہتی کہ کوئی آئے اِدہر
جلد اِسپند کرے اِسکو لگی ہو نہ نظر
کبھی کہتی کہ چلا اب مرا دل قابو سے
کیا کروں لگ گئی بچے کی زباں تالو سے

۱۲۳۔ نہ بہلتا جو کسی شکل سے وہ گل رخسار
ماں سکینہ کے پھر آغوش سے لیتی اکبار
جاے انصاف ہے آئے اُسے کسطرح قرار
مِلے دو دن سے نہ جس بچے کو پانی زنہار
درد جن کو نہ ہو بیداد وہ کب جانتے ہیں
حق نے دی ہے جسے اولاد وہ سب جانتے ہیں

۱۲۴۔ گود میں لیکے نظر چہرے پہ بانو نے جو کی
مردنی چھائی ہوئی رخ پہ نظر آنے لگی
دیکھی نکلی ہوئی ہونٹوں پہ زباں ننہی سی
دل میں اک درد اٹھا ہوک جگر میں اُٹھی
بگڑے تیورجو نظر آئے علی اصغڑ کے
پیٹنے سر کو لگی بال پریشاں کر کے

۱۲۵۔ مڑکے زینب کو یہ چلائی کہ بی بی اِدہر آؤ
کیا ہوا یہ مرے بچے کو ذرا دیکھ تو جاؤ
کہا کبرا سے میں صدقے گئی تم غل نہ مچاؤ
جاکے حضرت کے جو پڑہنے کا ہے قرآن وہ لاؤ
کیا مرض ہوئیگا کیا دوں میں دوا اصغر کو
ارے قرآن کی دے کوئی ہوا اصغر کو

۱۲۶۔ رو کے کہنے لگی فضہ سے یہ با دیدۂ نم
رن میں سر کھولے یونہی جائیو زہرا ؑ کی قسم
کہنا حضرت سے کہ اے قبلۂ دیں شاہِ امم
آئیے جلد کہ اصغر کا نکلتا ہے دم
دست و پا سرد ہیں منکابھی ڈہلا جاتا ہے
طَور اچھا نہیں اصغر کا نظر آتا ہے

۱۲۷۔ سنکے یہ پڑگیا ناموسِ نبیؐ میں کہرام
سر لگیں پیٹنے سیدانیاں اٹھ اٹھ کے تمام
لاشِ اکبر پہ جو روتے ہوئے بیٹھے تھے امام
اُٹھے رونے کی صدا سن کے شہِ عرش مقام
کہا بے وجہ نہ یہ دہوم بُکا کی ہوگی
ہے یقیں پیاس سے اصغر نے قضا کی ہوگی

۱۲۸۔ کہہ کے یہ لاشۂ اکبر سے مخاطب ہوکر
روکے فرمایا خدا حافظ و ناصر اکبر
آتے ہیں جاکے ابھی خیمہ میں اے رشکِ قمر
تم بھی سُن لو کہ ہیں کیسے متقاضی اصغر
صبح سے زخمِ جگر ہیں مرے چِھلنے کے لیئے
کیسے مچلے ہوئے ہیں آپ سے ملنے کے لیئے

۱۲۹۔ چھوڑیں بیٹا تمہیں ہم دہیان نہ اِسکا رکھنا
دُور دل سے یہ خیال اے مرے شیدا رکھنا
بھائی کے واسطے جا تھوڑی سی بیٹا رکھنا
ایک پہلو میں ہمارے بھی لیئے جا رکھنا
حال پُرسی کے لیئے خیمے میں جاتے ہیں ابھی
لاکے اصغر کو تو پہلو میں لِٹاتے ہیں ابھی

۱۳۰۔ کہہ کے یہ آئے جو خیمے کے قریں شاہِ امم
دیکھا فضہ چلی آتی ہے بصد درد و الم
پوچھا کیا حال ہے اصغر کا بتا اے پُر غم
عرض کی خیمۂ اقدس میں بپا ہے ماتم
آیئے چھوٹے سے لاشے کے اٹھانے کے لیئے
لونڈی خود آئی تھی حضرت کے بلانے کے لیئے

۱۳۱۔ سن کے اشک آنکھوں سے جاری ہوئے کھینچی اک آہ
کرکے پھر ضبط یہ فرمایا کہ اِنًاﷲ
لائے تشریف جو خیمے میں شہِ عرش پناہ
دیکھا اک حشر ہے احوال ہے بانو کا تباہ
خاک پر غش ہیں پڑی حلق میں دم اٹکا ہے
خون جاری ہے جو گہوارہ پہ سر پٹکا ہے

۱۳۲۔ جاکے بانو کے قریں بیٹھ گئے شاہِ ہدا
ہاتھ سے شانہ ہلاکر کہا صاحب یہ کیا
لازم انسان کو ہر حال میں ہے شکرِ خدا
واہ کیا بھول گیءں صبرِ جنابِ زہرا ؑ
یاد تم کیجیو اُس ظلم کو اور اُس دن کو
کس طرح فاطمہ ؑ نے صبر کِیا محسن کو

۱۳۳۔ میں یہ کہتا نہیں اولاد کا ہوتانہیں غم
پر نہ ایسا بھی کہ جیسا ہے تمھارا عالم
توڑا زانو پہ مرے اکبرِ ناشاد نے دم
تھا بجا اُس کیلیئے جان بھی کھوتے اگر ہم
حُسن میں یوسفِ کنعاں سے کہیں بہتر تھا
سب پسر ہیں پہ وہ ہم صورتِ پیغمبر ؐ تھا

۱۳۴۔ شان میں مثلِ نبی ؐ جرائت و ہمت میں ہژبر
ہم بھی اُس رشکِ قمرکے لیئے روئے جوں ابر
ہوسکے پر کوئی تدبیر نہ چارہ جز صبر
ایسے دلدار کو ہم نے بھی کِیا آخر صبر
صبر ہر حال میں صاحب تمہیں زیبندہ ہے
جان کیوں کھوتی ہو اصغر تو ابھی زندہ ہے

۱۳۵۔ کہکے یہ بانو سے تھامے ہوئے ہاتھونسے جگر
پڑگئی جانبِ گہوارۂ اصغر جو نظر
دیکھا ہیں جھولے کے گِرد اہلِ حرم ننگے سر
پیٹ کر سینونکو چلاتے ہیں ہے ہے اصغر
ننگے سر ہے دلِ سلطانِ مدینہ بیٹھی
ہاتھ رکھے ہوئے ہے پاس سکینہ بیٹھی

۱۳۶۔ حال گہوارہ میں ہے اصغرِ گُل رُو کا سقیم
پائنتی جھولے کے سر اپنا پٹکتی ہے نسیم
گال وہ جس پہ کسی گل نے نہ پائی تقدیم
اُن سے مرجھائے ہوئے پھولونکی آتی ہے شمیم
چمنِ دہر میں یہ ظلم عیاں ہوتا ہے
جو کِھلا تک نہیں وہ پھول خزاں ہوتا ہے

۱۳۷۔ نیم وا چشم ہے یا نرگسِ شہلائے اِرم
یہ نقاہت ہے کہ پلکیں نہیں ملتیں باہم
جن لبوں پر سے ہو یاقوت تصدق ہردم
ہوگئے ہیں وہی لب فرطِ عطش سے نیلم
مردنی چھائی جو ہے چہرۂ نورانی پر
عرق آیا ہوا ہے چاند سی پیشانی پر

۱۳۸۔ فخرِ ایوب تھے ہرچند شہِ جن و بشر
ضبط پر ہو نہ سکا دیکھ کے حالِ اصغر
اشک آنکھوں سے ٹپکنے لگے گہوارہ پر
منہ پہ منہ رکہدیا فرزند کے با دیدۂ تر
دست و پا سرد نظر آئے جو اُس دلبر کے
غم کا اک تیر لگا دل پہ شہِ بے پرکے

۱۳۹۔ چوم کر منہ کو یہ کہنے لگے اصغر جانی
لاؤں تیرے لیئے بیٹا میں کہاں سے پانی
نہر کو گھیرے ہیں سب ظلم و ستم کے بانی
کی پئے آب بہت میں نے عَرَق افشانی
کس کو چلاوں کہ سُن لے مری روداد کوئی
وہاں تو سنتا بھی نہیں ہے مری فریاد کوئی

۱۴۰۔ ہائے کس سے ہوں تمہارے لیئے میں طالبِ آب
 مری باتوں کا بھی دیتے نہیں بے رحم جواب
دیکھ کر تم کو کلیجہ مرا ہوتا ہے کباب
خیر اب مجھ کو تو منظور ہے تحصیلِ ثواب
نہ رہے ماں کو تمہاری بھی شکایت بیٹا
ختم پھر کرتا ہوں اک آخری حجت بیٹا

۱۴۱۔ فوجِ اعدا میں ہے اک ایک شقی دشمن دیں
مجھ کو دیں پانی کا قطرہ یہ نہیں دل کو یقیں
دیکھ کر حال تمہارا مگر اے ماہ جبیں
رحم شاید انہیں آجائے تو کچھ دور نہیں
ظاہر اُن پر میں تمہارا یہ تعب کرتا ہوں
تم کو دکھلاکے میں اب آب طلب کرتا ہوں

۱۴۲۔ کہہ کے یہ ہاتھ دیا گردنِ نازک کے تلے
لیکے پھر جھولے سے لپٹالیا حضرت نے گلے
ماں یہ چلانے لگی اے مرے نازونکے پلے
چھوڑا مجھ دائی کو جنگل کے بسانے کو چلے
خیر سے تجھ کو میں اے میرے مسافر دیکھوں
اے مرے ہنسلیوں والے میں تجھے پھر دیکھوں

۱۴۳۔ بی بیاں پیٹ کے کرنے لگیں جانکاہ یہ بین
پھر کب آئیگی نظر شکل یہ اے نورالعین
سر پٹکتے رہے سب روکے بصد شیون و شین
نکلے بچے کو لیئے خیمۂ اقدس سے حسین
دہوپ کے صدمے سے ہردم جو غش آجاتا تھا
ضعف سے ننھا سا منکا بھی ڈھلا جاتا تھا

۱۴۴۔ پیاس کے صدمے سے کُھل جاتا تھا ننھا سا دہن
گرم لُو آتی ہے جب سرد ہوا جاتا ہے تن
متحمل جو نہ تھا دہوپ کا نازک وہ بدن
شہ اوڑہائے ہوئے تھے اپنی عبا کا دامن
ہچکی آتی تھی تو اشک آنکھوں سے ڈہل پڑتے تھے
ساتھ ہی شاہ کے آنسو بھی نکل پڑتے تھے

۱۴۵۔ دیکھ کر سُوئے فلک کہتے تھے شاہِ ذیجاہ
اپنی مظلومی کا یارب تجھے رکھتا ہوں گواہ
حال ہے فرطِ عظش سے مرے بچوں کا تباہ
مجھ کو دیتے نہیں اِس نہر کا پانی بدخواہ
بہرہ اندوز یہ کفار تو دریا سے ہیں
آج دو روز سے بچے مرے سب پیاسے ہیں

۱۴۶۔ کہکے یہ کی طرفِ لشکر گمراہ نظر
دی صدا ہے پسر سعدِ بدانجام کدہر
ہوگا خیمہ میں کوئی کہدے کہ اے بانئ شر
تجھکو کرتا ہے طلب فاطمہ ؑ زہرا کا پسر
نہ ادا رسم تعارف نہ مدارات کرے
کچھ کہونگا میں ذرا آکے ملاقات کرے

۱۴۷۔ سنکے یہ خیمہ سے نکلا پسرِ سعدِ لعیں
سر پہ خدام تھے کھولے ہوئے چترِ زریں
آیا میدانمیں بصد جاہ و حشم وہ بے دیں
یہاں حضرت کا مددگار تھا کوئی نہ معیں
تھے نہ ساتھ اہلِ وفا سرپہ نہ کچھ سایہ تھا
دہوپ میں یکہ و تنہا پسرِ زہرا ؑ تھا

۱۴۸۔ یاس سے اُسکی طرف دیکھ کے با چشم پُرآب
متکلم ہوئے یوں بادشہ عرش جناب
ہیں دَو و دام تک اِس آبِ رواں سے سیراب
تشنگی سے ہیں نہایت مرے بچے بیتاب
نہیں جا غور و تامل کی بھی مطلق اِ سمیں
سب کا حق ہے مرے بچوں کا نہیں حق اِسمیں

۱۴۹۔ تو ہی کہہ سامنے آنکھونکے جو بہتی ہے یہ نہر
میری مادر کا نہیں ہے ستم آرا یہ مہر
جسکا اک قطرہ بھی پینا مرے بے اِذن ہے زہر
سب پِیئں اُسکو میں پیاسا رہوں یہ کیا ہے قہر
خوش رہیں سب میں دل افسردہ و مغموم رہوں
یوں لُٹے مہر مری ماں کا میں محروم رہوں

۱۵۰۔ فوج میں تیری شناسا نہیں میرا کوئی گر
تو بھی کیا مجھ کو نہیں جانتا اے بانئ شر
پاس نانا کے جو تو آتا تھا ہمراہِ پدر
مجھ کو کاندھے پہ نبیؐ کے نہیں دیکھا اکثر
سجدۂ حق میں جو خالق کا نبیؐ ہوتا تھا
پشتِ اقدس پہ حسین ؑ ابنِ علی ؑ ہوتا تھا

۱۵۱۔ محو تھے وعظ میں اک دن جو رسولِ کونین
سارے اصحاب بھی تھے جمع بصد زینت و زین
تو بھی اُس وعظ میں تھا پیشِ رسول ؐ الثقلین
کھاکے ٹھوکر جو گرا صحن میں مسجد کے حسین
یاد ہے پیار جو کرتے تھے پیمبر ؐ مجھ کو
لے لیا گود میں منبر سے اتر کر مجھ کو

۱۵۲۔ دیکھ کر حال وہ مجھ پر یہ ستم دیکھے تُو
باغ سارا مرا ہو جائے قلم دیکھے تُو
گرے تھرا کے محمد ؐ کا علم دیکھے تُو
توڑیں بے آبی سے بچے مرے دم دیکھے تُو
حشر میں سامنے نانا کے نہ تُو جائیگا
کیا نہ منہ احمدِ ؐ مختار کو دکھلائیگا

۱۵۳۔ زُعمِ ناقص میں ہوں تم سب کے گنہگار تو میں
ظلم و بیداد و جفا کا ہوں سزاوار تو میں
بیعت شوم سے کرتا ہوں جو اِنکار تو میں
قابلِ قتل ہوں یا لائقِ آزار تو میں
کونسے جرم و گنہ کی یہ مکافات ہوئی
میرے بچونکی خطا بھی کوئی اِثبات ہوئی

۱۵۴۔ جاں بلب یوں تو عطش سے ہیں کئی طفل صغیر
شبِ ہشتم سے پہ اصغر کو نہ ہے آب نہ شِیر
اِس گھڑی پیاس سے احوال ہے اسکا تغئیر
لایا اِس دہوپ میں ہے پاس ترے لے شبیر ؑ
بڑھتی جاتی ہے ہر اک لحظہ نقاہت اِس میں
اب تو باقی نہیں رونے کی بھی قوت اِس میں

۱۵۵۔ نبضیں ساکت ہیں بدن سرد ہے ہونٹوں پہ ہے جاں
کانٹے سب پڑ گئے ہیں خشک ہے چھوٹی سی زباں
میرے کہنے پہ اگر کچھ غلطی کا ہو گماں
تو بھی خود دیکھ لے بیدرد عیاں را چہ بیاں
رحم کر چھوٹے سے سید پہ پیمبر ؐ کے لیئے
حکم دے پانی کے اک جام کا اصغر کے لیئے

۱۵۶۔ کہکے یہ چہرہ سے الٹادیا دامانِ عبا
روکے دی بچے کو ہاتھوں پہ اٹھا کر یہ صدا
حال دیکھ اے پسرِ سعد علی اصغر کا
اِس مرے ہنسلیوں والے پہ ہے اب رحم کی جا
آگ یہ میرے کلیجے کی بجھادے ظالم
تھوڑا پانی مرے بچے کو پلادے ظالم

۱۵۷۔ یہ سخن کہکے جو کی قبلۂ دیں نے زاری
پسرِ سعد کے بھی ہوگئے آنسو جاری
آئی اُس بچے کی حالت جو نظر اک باری
پیٹ کر رونے لگی فوجِ مخالف ساری
قاطر و اسپ وشتر فوج کے یکسر روئے
طیرِ صحرائے بلا اوجِ ہوا پر روئے

۱۵۸۔ پسرِ سعد سے یہاں کرتے تھے حضرت تقریر
تھا کمیں میں پسرِ کاہلِ مرتد بے پیر
تاک کر مارا جو بچے کے گلے پر اک تیر
یک بیک چونک پڑا باپ کے ہاتھوں پہ صغیر
چشم سے اشک کی جا خون کے قطرے نکلے
منہ سے کچھ خون کے کچھ دودھ کے لختے نکلے

۱۵۹۔ زخمِ گردن سے لہو کا جو چُھٹا فوارا
خون سے بھر گیا ننھا سا شلوکا سارا
شہ کے پاتھوں پہ تڑپنے لگا وہ مہہ پارا
وا نبیًاہ کا شبیر ؑ نے نعرہ مارا
پتلیاں پھیر دیں احوال وہیں غیر ہوا
ہچکی اک آئی بس اور خاتمہ بالخیر ہوا

۱۶۰۔ نکلا ہاتھوں پہ جونہی اصغر، بے شیر کا دم
تھر تھرا کر وہیں بس بیٹھ گئے شاہِ اُمم
دیکھ کر سُوئے فلک بولے یہ با دیدۂ نم
مرے مالک ترے بندے پہ یہ ہوتے ہیں ستم
کردیا نذر جو سرمایہ تھا حاضر میرا
یہ بھی مقبول ہو اک ہدیۂ آخر میرا

۱۶۱۔ متصل حلق سے بچے کے جو بہتا تھا لہو
زخمِ گردن کے تلے رکھتے تھے ہر دم چُلًو
چرخ پر پھینکتے جاتے تھے شہِ تشنہ گلو
کہتے تھے ناقۂ صالح سے کم اصغر نہیں تُو
ہے یہ حیرت کہ فلک پھٹ کے زمیں پر نہ گرا
نیچے اک قطرۂ خونِ علی اصغر نہ گرا

۱۶۲۔ کھودی پھر چھوٹی سی اک قبر بہ چشم نمناک
چاند کو اہنے چھپایا شہِ دیں نے تہہِ خاک
جھک کے پھر رکھدیا تعویذِ لحد پر رخِ پاک
دونوں ہاتھوں سے گریبانِ مبارک کِیا چاک
رکھ کے یوں قبر پہ منہ شاہِ امم روتے تھے
آپ کے رونے سے سب اہلِ ستم روتے تھے

۱۶۳۔ چھ مہینے کے یہ بچے پہ جفا واویلا
حلق وہ چھوٹا سا وہ تیرِ دغا واویلا
حال حضرت کا ہوا ہوئیگا کیا واویلا
ابنِ کاہل نے نیا ظلم کِیا واویلا
حرملہ اِسکا ہے موجد یہ ستم تازہ ہے
دودھ پیتے ہوئے بچے کا گلا چھیدہ ہے

۱۶۴۔ اشہر ؔ اب آگے ہے وہ حال کہ پھٹتا ہے جگر
تیغ جلاد ہے اور بوسہ گہہِ پیغمبر ؐ
تن سے ہوتا ہے جدا فرقِ شہِ جن و بشر
دم میں اب کُھلتا ہے خاتونِ قیامت کا سر
لاشِ سہ گھوڑوں کی ٹاپوں سے کچل جائیگی
مسندِ ختمِ رُسُل آگ سے جل جائیگی

۱۶۵۔ ایک شب اور ہیں شبیر ہمارے مہماں
کل نہ یہ مجلسِ ماتم ہے نہ ہیں یہ ساماں
صبح ہوجاینگے سب تعزیہ خانے سنساں
کل عزادارونکے ہوجاینگے سب گھر ویراں
کل نہ سامانِ عزائے شہِ بے پر ہوگا
نہ علم ہونگے نہ ذاکرنہ یہ منبر ہوگا

۱۶۶۔ آج کی شب ہے وہ شب حشر ہے خیمہ میں بپا
عقبِ خیمہ سے آتی ہے یہ زہرا ؑ کی صدا
میرے مظلوم یہ مادر تری غربت کے فدا
آخر اِس بن میں بنی جان پہ تیری بیٹا
لاش ہوگی تری بے گور و کفن مقتل میں
ہا ئے کل سوئیگا اے لعل تُو اِس جنگل میں

۱۶۷۔ یہ وہ شب ہے کہ ہیں جبریلِ امیں ننگے سر
کل ہے کونین کے مختار کا دنیا سے سفر
خاک کل رن کی اڑائینگے پیمبر ؐ سر پر
حلق پر کل شہِ بے کس کے چلیگا خنجر
لاش پر رونے کو کل ختمِ رُسُل جائینگے
بال کل زینبِ ناشاد کے کھل جائینگے

۱۶۸۔ کل سرِ نیزہ ہے اور سبط نبی ؐ کے گیسو
تیرِ بیداد ہے کل اور علی اصغر کا گلو
کل قلم تیغ سے عباس کے ہونگے بازو
رن میں بہہ جائیگا کل آلِ محمد ؐ کا لہو
خونِ ناحق سے زمیں رن کی حِنائی ہوگی
کل محمد ؐ کے بھرے گھر کی صفائی ہوگی

۱۶۹۔ عترتِ پاکِ رسول، ؐ عربی جس میں ہے آج
عصر کو کل وہی ہوجائیگا خیمہ تاراج
بادشہ زادئ ایراں کا لٹیگا کل راج
ہونگی سیدانیاں کل ایک ردا کو محتاج
بازوئے بنتِ علی ؑ عہد شکن باندھیں گے
کل سکینہ کی کلائی میں رسن باندھیں گے

۱۷۰۔ لیگا کل بنتِ یداﷲ کی چادر کوئی
لُوٹ لیگا حرمِ پاک کا زیور کوئی
دُر سکینہ کے اتاریگا بداختر کوئی
قہر سے کھینچے گا بیمار کا بستر کوئی
کل ستم عابدِ بے کس پہ زیادہ ہوگا
بیڑیاں پاؤنمیں گردن میں قلادہ ہوگا

۱۷۱۔ بھیجو اُس جسم مقدس پہ درود اور سلام
رن میں کُچلا جو گیا گھوڑوں کی ٹاپوں سے تمام
بھیجو تم سب صلوٰۃ اُس سرِ اقدس پہ مدام
نیزۂ خولئ ملعوں پہ رہا جو تا شام
رحمت اُس سر پہ جسے نیزے پہ معراج ہوئی
لاش جسکی کفن و گور کو محتاج ہوئی

۱۷۲۔ تیری غربت کے فدا اے شہِ مظلوم حسینؑ
تیرے لاشے کے تصدق مرے مغموم حسینؑ
رکھا اعدا نے تجھے پانی سے محروم حسینؑ
آبِ خنجر سے ہوا تر ترا حلقوم حسینؑ
یہ عزادار گر اُس وقت پہ ہوتے مولا
ساتھ کٹواکے گلے خاک پہ سوتے مولا

مرتب: مرزا ریاض احمد

No comments:

Post a Comment